بھٹکل: کسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے سے بہتر ہے کہ سونا خریدیں ، ملک کے مشہور ماہر معاشیات پروفیسرعرفان شاہد کا مشورہ

بھٹکل:15؍فروری(ایس اؤ نیوز)عالم دین اور ماہر معاشیات پروفیسر عرفان شاہد  نے  بھٹکل آمد کے موقع پر پوچھے گئے مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے  سودی بینک کاری اور اسلامک بینکنگ کے درمیان اصل فرق کو واضح کیا اور کہاکہ جن لوگوں کو بینک کاری کے طریقہ کار کی جانکاری نہیں ہوتی ہے وہی اکثر ایسے سوال اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی پیداوار(پروڈکٹ) کا  طریقہ کار اہم ہوتا ہے ،یہاں پیداوار کے جو مختلف طریقے ہیں اس کی جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ  اس طرح کا سوال کرتےہیں ، یہ طریقہ کار وہی جانتا ہے جس کو بینکنگ کے متعلق جانکاری ہو۔ دونوں طریقہ کار مماثل نہیں ہیں بلکہ دونوں میں بنیاد ی فرق ہے۔

ہیرا گولڈ، آئی ایم اے جیسے نام نہاد اسلامی سرمایہ کاری کے متعلق جانکاری دیتےہوئے انہوں نے کہاکہ ہم سب سےپہلے اسلامی فائنانس کی تعلیم دیں۔  اس طرح کی جو بھی کمپنیاں  اسلام کے نام پر دھوکہ دہی  کررہی ہیں، انہوں نے  مسلمانوں سے ان کا سماجی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ موجودہ ملک کی معاشی حالات پر سرمایہ کاری کو لےکر انہوں نےکہاکہ کسی بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے بہتر یہی ہے کہ  وہ سونا خریدیں ۔

بھارت میں اسلامک بینکنگ کے لئے کی جانے والی  کوششوں کے تعلق سے انہوں نے کہاکہ بھارت میں اسلامک بینکنگ کے لئے بے شمار کوششیں ہوئی ہیں۔ حقیقت میں اسلامک بینکنگ ، اسلامک فائنانس کی ابتداء یہیں سے شروع ہوتی ہے  گویا اسلامک فائنانس کے  انقلاب کی آواز بھارت سے ہی گونجی ہے۔ مولانا مودودیؒ، پروفیسر فضل الرحمن فریدی ؒ،مولانا حفظ الرحمن سیوہاری ؒ اور نجات اللہ صدیقی ،عمر چھاپرا وغیرہ نے ہی اسلامک فائنانس کی ترویج کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھار ت میں  قانونی نظام کے چلتے ایک مکمل اسلامک بینکنگ قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود یہاں لوگ اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔

موجودہ حالات میں اسلامک بینکنگ کے قیام کے  امکانات پر بات کرتےہوئے انہوں نے کہاکہ دنیا کےیوروپ، امریکہ ،کینڈا، فرانس ،جرمنی وغیرہ میں اسلامک بینکنگ فائنانس کو جگہ دی ہے وہاں باقاعدہ سسٹم چل رہاہے تو بھارت میں بھی یہ ہوسکتاہے۔ اگر بھارت میں اسلامک بینکنگ سسٹم قائم کیا جائے تو یقیناً اس سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ بھارت میں بھی ایسے کئی سارے لوگ ہیں جو اسلامک بینکنگ کو اچھی طرح جانتےہیں ۔ رگھو رام راجن ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنربننے سے پہلے اسلامک بینک کے مشیر رہ چکےہیں۔ اسی طرح اگر ہمارے ملک میں اسلامک بینکنگ سسٹم جاری ہوتاہے تو ملک کی معیشت کو کافی فائدہ ہوگا۔ کیونکہ عام طورپر کوئی بھی ادارہ یا کمپنی ملک میں آتا ہے تو ا س سے فائدہ ضرورہوتاہے۔ اسی طرح آج جو لوگ دیگر ممالک میں اسلامک بینکنگ میں سرمایہ کاری کررہےہیں جو بڑے پیمانے پر ہورہی ہے وہ یہاں بھی ہوگی۔ سرمایہ کاری بڑھے گی تو کئی سارے فائدےہونگے۔

عالمی بازار میں غیر سودی فائنانس طرز میں اضافے کی وجوہات بیان کرتےہوئے کہاکہ سودی طرز پر چلنے والے فائنانس سے کافی نقصانات ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامک طرز کافائنانس حقیقی (رئیل اکنامی ) تجارت پر انحصار کرتی ہے، اس میں مصنوعی تجارت نہیں ہوتی ہے اگر ہوتی بھی ہے تو بہت کم اپنایا جاتاہے، عالمی معاشی بحران کے دوران بھی اسلامک فائنانس اپنی رفتار سے ترقی کرتے دیکھ کر عالمی سطح پر لوگوں نے اس طرز کو اپنانا شروع کیا ہے۔انہوں نے  مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامک فائنانس کی تعلیم پڑھائیں، ہم جب کسی بھی کورس کے لئے پہلے سے روزگار کا مطالبہ نہیں کرتے تو پھر یہاں کیوں سوال کرتےہیں۔ اسلامک بینکنگ مارکیٹ میں 85فی صد غیر مسلم عملہ کام کرتاہے اسی سے اندازا لگایا جاسکتاہے کہ اس میں روزگار کے کتنےمواقع میسر ہیں۔

خیال رہے کہ پروفیسر عرفان شاہد اسلامی معاشیات (Islamic Economics) پر تخصص کرتےہوئے کئی بین الاقوامی اور ملک کے مشہور رسالوں میں اسلامک بینکنگ کے موضوع پر درجنو ں مضامین و مقالے شائع کئے ہیں۔جامعتہ الفلاح اعظم گڑھ سے عالمیت، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن اور برطانیہ کی یونیورسٹی سے اسلامک فائناس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ موصوف کے بھٹکل دورے کے موقع پر وہ دفتر ساحل آن لائن پہنچے، جہاں   ترکی میں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی کرنے والے بھٹکل کے عبود آصف نے ساحل آن لائن کے لئے  ان کا انٹرویو لیا تھا۔

Direct Link

https://www.sahilonline.net/ur/islamic-finance-professor-irfan-shahid-interview-with-sahilonline

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *